Wednesday, 25 March 2020

علی بخش بیمارؔ اور دار السرور رام پور

علی بخش بیمارؔ اور دار السرور رام پور

ڈاکٹر شریف احمد قریشی

سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ اُردو
گورنمنٹ رضا پوسٹ گریجویٹ کالج،رام پور (یوپی) 

علی بخش بیمارؔ اور دار السرور رام پور


شیخ علی بخش بیمارؔ کے وطن کے بارے میں محققین اور تذکرہ نگار وں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔بعض حضرات نے محض قیاس اور بعض نے تحقیق کی روشنی میں ان کے وطن کو سنبھل، بدایوں، سہسوان،آنولہ،رام پور، بریلی یا بانس بریلی ثابت کر نے کی کوشش کی ہے۔اگر تمام دلائل کی روشنی میں نتیجہ نکالا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بیمارؔ کے آباء و اجداد نوابین روہیلہ کے دورِ حکومت میں سنبھل یا بدایوں سے ترکِ وطن کر کے آنولہ میں آباد ہو گئے تھے جو اُس وقت سیاسی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا جہاں 1204ھ مطابق 1789-90ء میں بیمار ؔ کی پیدائش ہوئی۔ ان کے والد کا نام شیخ غلام علی ہے۔ سنِ شعور کو پہنچنے اور تعلیم و تربیت سے فراغت کے بعد کسب معاش کے لئے انہوں نے لکھنؤ کا رخ کیا جہاں وہ مصحفی ؔ کی صحبت میں اپنے فنِ شاعری کو بھی جلا بخشتے رہے۔
20؍اگست 1849ء کو نواب سید محمد خاں ڈپٹی کلکٹر سہسوان ضلع بدایوں ریاست رام پور کے تخت پرمتمکن ہوئے۔ سعادت علی خاں رئیس آنولہ کے نواب محمد سعید خاں سے خصوصی تعلقات تھے اور بیمار ؔکو سعادت علی خاں کی سرپرستی حاصل تھی ۔تخت نشینی کے بعد نواب صاحب کی دعوت پر حکیم سعادت علی خاں رام پور پہنچے جہاں انھیں افواج کے جنرل کے جلیل القدر عہدے پر فائض کردیا گیا۔ سعادت علی خاں نے بوجۂ ہم وطنی اور دیرینہ تعلقات کی بنا پر علی بخش بیمارؔ کو دار السرور یعنی رام پور طلب کر کے دربار میں باریاب کرایا۔ اس طرح بیمار ؔ تقریباً 52-53 سال کی عمر میں درباری ملازمین میں داخل ہوئے۔جہاں انہیں فارسی کی داستان بوستانِ خیال کا اُردو میں ترجمہ کرنے کی ذمّہ داری سونپی گئی۔ بعض محققین اور تذکرہ نگار وں کا خیال ہے کہ رام پور میں اس وقت اخون زادہ احمد علی خاں غفلتؔ کا دور دورہ تھا اس لئے بیمارؔ نے دربار میں رسائی حاصل کرنے کی غرض سے مصلحتاً ان کی شاگردی اختیار کی جو قرینِ قیاس نہیں۔بیمارؔ اپنے سرپرست و محسن جنرل سعادت علی خاں کی دعوت پر رام پور پہنچے تھے اس لیے دربار میں باریابی کے لیے انہیں ان کے علاوہ کسی دوسرے وسیلے اور سہارے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ چوں کہ بیمارؔ کو مترجم کی حیثیت سے بوستانِ خیال کا ترجمہ کا کام تفویض ہوا تھا اور غفلتؔ کو شعروسخن کے علاوہ داستان طرازی میں بھی زبردست ملکہ حاصل تھا ۔اس کے علاوہ وہ 1825ء میں نواب احمد علی خاں کے عہد 

میں ’’رام اور سیتا کا قصّہ‘‘ترجمہ کر کے پیش کرچکے تھے لہٰذا قرین ِقیاس ہے کہ ترجمہ نگاری کی باریکیوں کو سمجھنے اور اپنی شاعری کو مزید پختگی بخشنے کے لیے انہوں نے غفلت جیسے ماہرِ فن ِترجمہ اور اُستادِ شعروسخن کی شاگردی اختیار کرنا ضروری سمجھا ہو جس کا اعتراف بھی انہوں نے ان اشعار کے ذریعہ کیا ہے   ؎
نہ اصلاح ِجناب غفلتؔاے بیمارؔ گر ہوتی۔تو معنی بھی نہ رکھتا شعرگوئی مجھ سے ناداں 
جانتا ہے معجزہ بیمارؔ غفلتؔ کا سخن ۔کون ہے دنیا میں ایسا معتقد اُستاد کا
داستانِ بوستان ِ خیال پانچ بڑے طلسمات یعنی طلسمِ اجرام واجسام ،طلسمِ سبع سباع،طلسمِ بیضا،طلسمِ حکیم اشراق اور طلسمِ حیرت کدۂ آصفی پر مشتمل ہے۔ بیمار ؔنے اس داستان کے تیسرے طلسم یعنی طلسمِ بیضا کا منثور ترجمہ کیا ہے۔اس کا م میںانہوں نے تقریباًً چودہ پندرہ سال کی مدت صرف کی۔ترجمۂ طلسمِ بیضا کا مخطوط رضا لائبریری رام پور میں محفوظ ہے جو پچپن جزواور پانچ اوراق پر مشتمل ہے۔اسے میر احمد کے علاوہ کئی کاتبوں نے خطِ نستعلیق میں متن کو سیاہ اور عنوانات کو سُرخ روشنائی سے تحریر کیا ہے۔نسخہ کی نقل بیمارؔ کی وفات کے تقریبا ً تین ماہ بعد یاز دہم شہر جمادی الثانی 1271ھ مطابق4 ؍مارچ 1856ء کو تمام ہوئی۔ ترجمہ طلسمِ بیضا میں بڑی حد تک عبارت آرائی، اوق،نا مانوس، لفظیات و تراکیب وغیرہ سے پرہیز کیا گیا ہے۔البتہ قدیم داستانی فضا کو قائم رکھنے کے لئے کہیں کہیں روایتی اسلوب اور مقفّیٰ اور مسجّع عبارت کی جھلک بھی نظر آجاتی ہے۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل فارسی زبان کی داستان کا نہایت عام فہم، صاف، شستہ، رواں اور با محاورہ  منثور  ترجمہ پیش کر کے بیمارؔ نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ شعروسخن کے علاوہ اعلیٰ پایہ کے نثر نگار اور مترجم بھی ہیں ،ملاحظہ فرمائیے نمونۂ تحریر:
’’ملک مغرب میںحضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے سیف الدولہ نام کا ایک بادشاہ تھا ۔خزانہ اس کے شمار سے باہر ،فوج لشکر سلیمان کے برابر، عدل میں نوشیرواں اس کا غلام،سخاوت سے ہر ایک آسودہ،کیا خاص کیا عام، ہر شہر اور قصبہ اور گاؤں میں عیش و نشاط کا چرچا، تمام ولایت میں رنج عنقا مگر چراغِ سلطنت کے بیٹے سے عبارت ہے،نہ رکھتا تھا‘‘۔(صفحہ 106)
جن استاذ الشعرا ء کی بدولت ریاستِ رام پور میں نہ صرف شعروسخن کی بنیاد پڑی بلکہ شاعری میں استادی اور شاگردی کے  کئی اہم سلاسل کا آغاز ہوا ۔اُن
میں قائم ؔچاند پوری کے قائم کئے سلاسل ِ شاعری میں شیخ علی بخش بیمارؔ کا نام نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔بیمارؔ نے اخون زادہ احمد علی خاں غفلتؔ کے آگے زانوے تلمذ تہہ کیا۔غفلتؔ کے استاد قدرت اللہ شوقؔ اور قائم ؔ چاند پوری کے شاگرد حضرت شوقؔ تھے ۔بیمارؔ کے شاگردوں کا حلقہ نہایت وسیع ہے جن میں سے سید محمد ذکریا شاہ نظامؔ رام پوری، منشی انور حسین تسلیمؔ اور میر احمد علی رساؔ کا شمار استاذ الشعراء میں کیا جاتا ہے ۔حاتم علی خاں بے چینؔ ،حاتم علی خان تسلیم، محمد مجتبیٰ خاں مجوؔ،مبارک شاہ خاں خانزادہ ، عبد القادر واقفؔ، صاحبزادہ امیر اللہ خاں امیرؔ، سید محمد جعفر شاہ شفاؔ، سید جعفر شاہ واثقؔ، مہدی علی خاں مہدیؔ وغیرہ اپنے دور کے ممتاز اور صفِ اول کے شعراء میں شمار کیے جاتے تھے۔
شیخ علی بخش بیمارؔ کے دیوان کا ایک نا مکمل قلمی نسخہ رام پور رضا لائبریری میں محفوظ ہے جس میں مکمل اور نا مکمل ۷۴؍ غزلوں کے علاوہ ایک ناتما م قصیدہ ،ایک رباعی،ایک قطعہ اور دو تضمین بہ ہئیتِ خمسہ شامل ہیں۔ بیشتر صفحات پر کسی غزل کا مطلع یا دو ایک شعر تحریر کر کے باقی صفحہ کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔  بعض صفحات پر صرف مقطع ہی تحریر ہے۔اس کے باوجود دیوان کو بہ اعتبار ِ حروفِ تہجی ردیف وار سلیقہ سے ترتیب دیا گیا ہے۔بیشتر محققین و تذکرہ نگار متفق ہیں کہ بیمارؔ کے کلام کا ایک بڑا حصہ تلف ہو گیا ہے۔میرا خیال ہے طلسمِ بیضا کے اردو ترجمہ میں چودہ پندرہ سال منہمک رہنے کی وجہ سے بیمارؔ نے اصلاحِ سخن کے علاوہ شعروسخن کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی اور اپنے کہے ہوئے سابقہ کلام سے بھی بے اعتنائی برتی جس کے سبب کلام کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے موجودہ دیوان کو اپنی یاد داشت کے سہارے مرتب کرایا ہوگا اور اس اُمید پر بیشتر غزلوں کے مطلعے،مطلعے یا چند اشعار تحریر کرانے کے بعد باقی صفحات کو سادہ رہنے دیا ہوگا کہ یاد آنے پر باقی اشعار تحریر کرا دیے جائیں گے مگر وائے نصیب نہ یاد داشت ہی نے وفا کی ہو گی اور نہ یہ خواب ہی شرمندہ ٔ تعبیر ہوا ہوگا ۔یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیمارؔ کی بیاض تو مکمل ہو گئی جس سے کسی کاتب نے نقل کر کے دیوانِ بیمارؔ تیار کیا ہو اور وہ جن اشعار کو پڑھنے سے قاصر رہا ہو اس جگہ کو اس خیال سے خالی چھوڑتا چلا گیا ہوکہ بعد میں کسی سے پڑھوا کر اشعار تحریر کر کے اس جگہ کو پُر کر دیا جائے گا مگر بعد میں ایسا نہ ہوسکا اور دیوان ِ بیمارؔ نا مکمل ہی رہا۔اس لیے جب تک بیمار ؔکی بیاض دستیاب نہیں ہوجاتی اُن کا دیوان نا مکمل ہی رہے گا۔
اگرچہ بیمار ؔکا تمام کلام دستیاب نہیں پھر بھی نا مکمل دیوان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے مگر وہ بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر ہیں۔ان کے کلام میں لکھنویت کے ساتھ دہلویت کی آمیزش نظر آتی ہے مگر اپنے تشخص ،اپنی انفرادیت،اپنے کمال اور اپنی صلاحیتوں کو بر قرار رکھتے ہوئے ۔وہ کسی کے مقلد یا پیرو نہیں۔انہوں نے جس لب و لہجہ ،اندازِ سخن ،تراکیب اور رنگ و آہنگ میں غزلیں کہی ہیں اس کے اثرات ان کے عہد ہی میں نظر آنے لگتے تھے جو آگے چل کر رام پور کی پہچان بنتے چلے گئے۔چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
روحِ بلبل کر گئی پرواز آتے ہی خزاں۔کچھ ہوا میں اُڑتے ہیں کچھ مل گئے پر خاک میں
سانس آہستہ لیجیو بیمارؔ ۔ ٹوٹ جائے نہ آبلہ دل کا 
اللہ رے اضطراب اسیرانِ دام کا۔صیّاد جور ِ پیشہ کے دل کو ہلا دیا
شرارِ آہ و سوزِ نالہ و دو دِدل وگریہ۔سماں دکھلا رہا ہے برق و رعد و ابر و باراںکا
سامنے یار کے بولا نہ گیا۔ہر گھڑی بات بناتے گزری
بیمارؔ اہلِ دل کی ہے سر چوٹ سر کشی۔ٹکرا کے سر کو کھائیے اُس سنگ در کی چوٹ
چشمِ جاناں پر گماں گزرا مجھے دوصاد کا ۔قامتِ موزوں ہے مصرع کسی استاد کا 
بہر حال رام پور رضا لائبر یری میں مخزون ترجمہ طلسمِ بیضا ،نامکمل دیوان اور شاگردانِ بیمارؔ کے ادبی کارناموں کی روشنی میں بیمارؔ کی ادبی خدمت و حیثیت کو بڑی حد تک متعین کیا جا سکتا ہے۔٭٭٭

    0 comments:

    Note: only a member of this blog may post a comment.