Tuesday, 15 January 2019

غزل گو شعرا کی حمدیہ شاعر ی

غزل گو شعرا کی حمدیہ شاعر ی

غزل گو شعرا کی حمدیہ شاعر ی

اردو شاعر ی میں دوسری اصناف سخن کی طرح حمد کی روایت بھی پائی جاتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے  کہ اس صنف سخن کو جس بلند و بالا مقام پر آج ہونا چاہئے  تھا، وہاں  تک یہ نہیں پہنچ سکی ہے۔ اس کے  برعکس نعت گوئی شہرت و مقبولیت کے  بام عروج پر دکھائی دے  رہی ہے۔ اخبارات و رسائل میں  تواتر کے  ساتھ نعتیہ کلام اور نعتیہ مضامین کی اشاعت جاری ہے۔ موقعے  موقعے  سے  بڑے  اہتمام کے  ساتھ نعتیہ محفلیں  بھی سجائی جاتی ہیں اور ہر سال دس بیس نعتیہ مجموعے  بھی زیور طباعت سے  آراستہ ہو کر شائع ہوا کرتے  ہیں۔ نعتیہ ادب کی جہت میں  یہ پیش رفت یقیناً رسول مقبول ﷺ سے  بے  انتہا عقیدت و محبت کا بین ثبوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں نبیِ کریم ﷺ کی ذات گرامی تمام نبیوں  میں  اعلیٰ و ارفع ہے  اور منفرد و محترم بھی۔ کیوں  کہ آپ خدا کے  محبوب نبی ہیں۔ حور و ملائک بھی آٹھوں  پہر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے  رہتے  ہیں۔ درود و سلام کے  نذرانے  کا یہ سلسلہ ازل سے  جاری و ساری ہے  اور ابد تک دراز رہے  گا۔ 
اس حقیقت کے  باوجود ہمیں  یہ نہیں  بھولنا چاہئے  کہ تمام جہانوں  میں سب سے  عظیم اور برتر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ وہی تمام تعریفوں  اور تعظیم کے  قابل ہے۔ کیوں  کہ وہ تمام صفات کا مالک ہے  جن کا شمار ہمارے  بس میں  ہے  نہ احاطہ! خدائے  وحدہ لاشریک کی بڑائی میں  ہم چاہے  جتنا کچھ لکھ لیں  کم ہو گا۔ دراصل ذات باری محیط کل ہے  اور محیط کل کی توصیف ایک بشر سے  ممکن نہیں۔ اسی لیے  قرآن حکیم میں  آیا ہے  کہ ’’اگر دنیا کے  تمام درختوں  کے  قلم بنا دئیے  جائیں  اور سمندر کے  پانی کو روشنائی، پھر بھی ذات باری کی مدح سرائی کا حق ادا نہیں  ہو گا۔ ‘‘ 
حمد گوئی کی راہ میں  سب سے  بڑی خوبی یہ ہے  کہ نہ کسی بندش یا شرط کا سامنا کرنا پڑتا ہے  نہ کوئی مشکل آڑے  آتی ہے  اور نہ بہکنے  کا کوئی خدشہ لاحق رہتا ہے۔ یہ راہ تمام حدود قیود سے  آزاد ہے  اور آزاد فضاؤں  میں  مبالغہ آرائی تو کیا غلو بھی ناقابل گرفت ہوا کرتا ہے۔ تعجب ہے  کہ حمد گوئی میں  اس قدر چھوٹ حاصل ہونے  کے  باوجود اس سمت میں وہ پیش قدمی اور دلچسپی دکھائی نہیں  دیتی جو نعت گوئی کی جانب دیکھنے  میں  آتی ہے  جب کہ نعت گوئی میں  مشکل مراحل سے  گزرنا پڑتا ہے۔ اس راہ میں  بڑے  ادب و احترام اور احتیاط کی شرط مقرر ہے۔ اسی لیے نعت کودو دھاری تلوار سے  مثال 
دی گئی ہے۔ یہاں  ذرا بھی پاؤں  پھسلا کہ گئے کام سے ۔
افسوس کا مقام یہ ہے  کہ نعت گوئی میں وہ لفظیات و خیالات بھی نظم کیے  جا رہے  ہیں  جن کو صرف حمد کے  لیے  مخصوص ہونا چاہئے۔ بعض حضرات تو حمد اور مناجات کے  فرق کا بھی لحاظ نہیں  رکھ پاتے  ہیں۔ حمدیہ کلام میں بھی دست سوال دراز کر دیتے  ہیں  جو بالکل نامناسب عمل ہے۔ حمد میں  صرف خالق اکبر کی ثنا خوانی مقصود ہوتی ہے۔ جب کہ مناجات میں  ہم اپنی طلب اور مدعا بھی بیان کر سکتے  ہیں  اور رب ذوالجلال کی بزرگی اور قدرت کا اعتراف بھی!حمد کہتے  وقت ان باریکیوں  کو پیش نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔ تاکہ حمد کی عظمت برقرار رہے۔ ہمیں خدائے  بزرگ و برتر کی ثنا خوانی میں  قطعی بخالت سے  کام لینا نہیں  چاہئے۔ حق تو یہ ہے  کہ اپنی بساط سے  بڑھ چڑھ کر اس کی مدح سرائی کا فریضہ ادا کرنا چاہئے۔ 
حمد گوئی کی روایت کو آگے  بڑھانے  اور اس کی ترویج و ترقی کے  لیے  اس بات کی ضرورت ہے  کہ کثرت سے  حمد تخلیق کی جائے، تزک و احتشام کے  ساتھ حمدیہ محفلیں  منعقد کی جائیں  اور اخبارات و رسائل کے  مدیران معتبر قلم کاروں  سے  حمدیہ مضامین و مقالے  بھی لکھوائیں  نیز گاہے  گاہے  حمد نمبر بھی شائع کریں۔ جس طرح پاکستان میں  اس کے  فروغ کے  لیے  کوششیں  جاری ہیں۔ تاکہ ہمارا حمدیہ ادب بھی دوسرے  ادب پاروں  کے  بالمقابل بھرا پرا دکھائی دے۔ 
اس حقیقت سے  کسے  انکار ہے  کہ تنقید ادب کے  معیار کی تفہیم کا پیمانہ ہے۔ لیکن عقیدے  کی شاعر ی میں  اس پیمانے  کا وہ زاویہ نگاہ نہیں  ہونا چاہئے  جو دیگر اصناف شاعر ی کے  لیے  متعین ہے۔ ہمارے  ناقدین کا خیال ہے  کہ حمد و نعت، منقبت، قصیدہ اور مرثیے  کا تعلق چوں  کہ عقیدے  سے  ہے  اس لیے  ایسی شاعر ی میں  تغزل کا گزر ممکن نہیں۔ لہٰذا وہ تمام اصناف شاعر ی جن کا تعلق عقیدے  سے  ہے  ناقدین کے  دو ٹوک فیصلے  کا شکار ہو گئیں۔ ہمارے  خیال میں اگر ادب عقیدت کے  سمندر کو کھنگالا جائے  تو اس میں  بھی وجدان کی موجیں  ٹھاٹھیں  مارتی ہوئی دکھائی دیں  گی اور اس وجدان کا بہاؤ تغزل کے  بغیر نا ممکن ہے۔ عقیدے  کی شاعر ی پرہی کیا موقوف! جہاں  تک ہم سمجھتے  ہیں  کہ کسی بھی صنف شاعر ی میں  تغزل کے  بغیر وجدانی کیفیت کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔ دیکھا جائے  تو دنیا کے  تمام معاملات و موضوعات کی توصیف بلکہ بیان، حق کی صفات کاہی بیان ہے۔ اس لیے  صنف حمد کی وسعت کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اب شاعر کی تخیل کی پرواز اور فراست و دانائی پر یہ منحصر ہوا کرتا ہے  کہ وہ عشق میں  کس قدر غرق ہو پایا ہے  اور محبوب جو ذات باری ہے  اور محیط کل بھی۔ اس کے  کس کس پہلو کو محسوس کر پایا ہے  اور اپنی محسوسات کو لفظوں 
کے  جامے  میں کس حد تک ظاہر کرنے  میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ تعلق خاطر یا جذبے  کی فضا جتنی گہری اور صادق ہو گی حمد بھی اتنی ہی بلیغ، کامیاب، پر اثر اور فکر انگیز ہو گی۔ 
حمد کی صنف میں  دیکھئے  تو غزل کی صنف سے  زیادہ بلاغت ہے۔ تغزل تو حمد کا حصہ بھی ہے  اور وصف خاص بھی۔ اس لیے  کہ غزل کی دنیا میں محبوب کو مبالغے  کے  ساتھ صنم یا خدا بنانا پڑتا ہے  لیکن حمد کا موضوع ہی جمالیات کا منبع ہے۔ وہی تو حسن ازل ہے  تو اس حسن کے  بیان، اور اس کی صفات کے  اظہار میں  تغزل نہ آئے  تو کیا آئے۔ شاعر کے  سامنے  تو جمالیات کا ایک پر نور سمندر رواں  ہے  اب اس کے  فکر و فن کے  دامن پر منحصر ہے  کہ وہ اپنے  دامن میں  کتنا بھر لیتا ہے۔ البتہ عقیدے  کی شاعر ی کے  مرکزی خیالات میں  یکسانیت اور ٹکراؤ نا گزیر ہے۔ ایسی شاعر ی میں  بڑی شاعر ی کی تلاش کی بجائے  افکار، احساسات، جذبات، وجدان، پیرایۂ اظہار اور نئے  اسالیب کی دریافت کی جائے۔ 
(حمدومناجات نمبر ڈاکٹرغلام ربانی فدا)
روایت کی پاسداری مستحسن سہی، لیکن روایت کا اسیر ہو کر لکیر کا فقیر بن جانا کبھی قابل رشک نہیں  ہوتا۔ کیوں  کہ عقیدے  اور تقلید کے  حصار میں  مقید رہنے  سے  شاعر ی میں  تازگی کے  امکانات کم ہو جاتے  ہیں  اس حقیقت کو روشن خیال شعرا نے  شدت سے  محسوس کرتے  ہوئے  حمدیہ شاعر ی کو بھی نئے  اسالیب سے  آراستہ کیا ہے  اور اپنے  پیرایۂ اظہار کو ندرت بھی عطا کی ہے۔ ان کی نظمیہ اور غزلیہ شاعر ی میں  تازہ کاری کی جو کیفیت پائی جاتی ہے  وہ حمدیہ شاعر ی میں  بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ حمد گوئی سے  متعلق اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے  کی ضرورت اس لیے  پیش آئی ہے  کہ آج کی حمدیہ شاعر ی کا جائزہ لیا جائے  اور یہ دیکھا جائے  کہ اس کا مزاج کیا ہے  اور کس نہج پر ہے۔ یہ دیکھنے  کے  لئے  سب سے  پہلے  مغربی بنگال کی حمدیہ شاعر ی کا مطالعہ کرتے  چلیں :
جہان خاک زا میں  ایک ذرہ ہے  وجود اپنا
مگر ذرے  میں  ذوق جستجو کس کی عنایت ہے 
(سالک لکھنوی)
جہان خاک زا میں  انسان کا وجود ایک ذرے  سے  زیادہ نہیں۔ اس کے  باوجود وہ بچپن سے  بڑھاپے  تک تلاش و جستجو کے  حصار سے  باہر نہیں  نکلتا۔ کبھی چاند ستاروں  کو چھونے  کی تمنا کرتا ہے  تو کبھی سمندر کھنگالنے  کی۔ شاعر حیرتی ہے  کہ اگر یہ خدا نہیں  ہے  تو ایک ذرے  میں  یہ ذوق جستجو کس کی دین ہے۔ 
ہوا کے  شانے  پہ جو بشر کو اڑا رہا ہے 
سمندروں  میں  جو کشتیوں  کو ترا رہا ہے 
جو ہو کے  اوجھل نظر سے، جلوے  دکھا رہا ہے 
اندھیری شب میں  بھی راستہ جو بتا رہا ہے 
وہی خدا ہے، وہی خدا ہے،
(علقمہ شبلی)
قادر مطلق نے  انسان کو بھی کس قدر فکر و فراست اور قدرت سے  نواز دیا ہے، کہ اب وہ بھی آسمان پر سفر کر رہا ہے۔ سمندروں  کے  سینے  کو چیر کر جہاز رانی  پر قادر ہے۔ شب تاریک میں  بھی سفر طے  کر رہا ہے  اور نظر سے  اوجھل نظاروں  کو بھی دیکھ رہا ہے۔ ان سب کے  پیچھے  کس کی کارفرمائی شامل ہے  سوائے  خدا کے۔ اسی کا اعتراف اس بند میں  شاعر نے  کیا ہے۔ 
صبح تیری عطا، شام تیری عطا
کام کے  بعد آرام تیری عطا
(قیصر شمیم)
کائنات میں  کوئی چیز بے  وجہ وجود میں  نہیں  آئی ہے۔ شام و سحر اس لیے  خلق کی گئی ہیں  کہ مخلوق تلاش رزق میں صبح سے  شام تک مصروف رہے۔ تلاش رزق میں  اس کا تھک جانا بھی فطری بات ہے۔ اس لیے  اس کے  آرام اور سکون کے  واسطے  رات بھی وجود میں لائی گئی ہے  تاکہ اس وقت وہ آرام کر سکے۔ لیکن آرام اسے  نصیب ہوتا ہے  جسے  وہ توفیق دیتا ہے۔ درج بالا شعر میں  شاعر نے  اسی مفہوم کو ادا کرنے  کی کوشش کی ہے۔ 
ترا جو ہو گیا دن اس کا، رات اس کی ہے 
حیات اس کی ہے، یہ کائنات اس کی ہے 
(حلیم ثمر آروی)
خدا اسے  ملتا ہے  جو خدا کی جستجو کرتا ہے  اور اس جستجو میں  راہ عشق سے  گزرنا پڑتا ہے۔ جو خدا کو پا لیتا ہے  اسے  سب کچھ مل جاتا ہے۔ یہ دن، یہ رات، یہ کائنات کیا اس کی حیات کو بھی دوام حاصل ہو جاتا ہے۔ 
شعلوں  میں  کون، کون ہے  مچھلی کے  پیٹ میں 
عالم ہے  تو، علیم ہے  تو، رب ذوالجلال
(احمد رئیس)
یہ شعر تلمیحی شعر ہے۔ خدا عالم بھی ہے، علیم بھی اور کرشمہ ساز بھی۔ اس نے  حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شعلوں  میں بھی محفوظ و سلامت رکھا اور حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے  پیٹ میں۔ شاعر نے  اس شعر میں  رب ذوالجلال کی انھی کرشمہ سازیوں  کی طرف اشارہ کرنے  کی کوشش کی ہے۔ 
کوئی معبود نہیں  تیرے  سوا اے  اللہ
سر بہ سجدہ ہے  ترے  سامنے  بندہ تیرا
(علیم الدین علیم)
شاعر نے  درج بالا شعر میں  ذات باری کی وحدانیت کا اعتراف کرنے  کی سعادت حاصل کی ہے۔ بے  شک اللہ کے  سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی مسجود بھی ہے، اسی کے  سامنے  تمام مخلوق سر بہ سجدہ ہوا کرتی ہے۔ 
گلوں  کو رنگ، بہاروں  کو تازگی دی ہے 
کلی کو حسن، نظاروں  کو دل کشی دی ہے 
(محسن باعشن حسرت)
شاعر نے  یہاں  مناظر فطرت کو موضوع سخن بنایا ہے۔ گلوں  کے  رنگ، بہاروں  کی تازگی، کلی کے  حسن اور کائنات کے  نظاروں  سے  نہ صرف حظ اٹھانے  کی کوشش کی ہے  بلکہ عقیدت کے  ساتھ اللہ جل جلالہ کی عنایات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ 
میں  خطا ہوں، تو عطا ہے، میں  زمیں  تو آسماں ہے 
مری حیثیت ہے  کتنی، ترا مرتبہ کہاں  ہے 
(ضمیر یوسف)
شاعر نے  آقا اور غلام کے  درمیانی فاصلے  کو شعر میں  نظم کرنے  کی کوشش کی ہے۔ وہ نہ صرف اپنی حیثیت پہچانتا ہے  بلکہ اپنے  آقا کے  بلند و بالا مرتبے  سے  بھی کماحقہ واقف ہے۔ 
جس میں  کوئی شک نہیں  وہ حق ہے  تو
سچ تو یہ ہے  قادر مطلق ہے  تو
ذات لا محدود تیری، لازوال
تو ہے  بے  شک بے  عدیل و بے  مثال
(ارشاد آرزو)ان چار مصرعوں  میں شاعر نے  فنکارانہ طور پر ذات باری کی کئی صفات کا احاطہ کرنے  کی سعادت حاصل کی ہے۔ یقیناً خداوند کریم برحق بھی ہے  اور قادر مطلق بھی، اس کی ذات لامحدود بھی ہے  اور لازوال بھی۔ بے  شک وہ بے  نظیر بھی ہے  اور بے  مثال بھی۔ 
کیا حقیقت مری، میں  فنا ہی فنا
تو بقا ہی بقا، تو کہاں، میں  کہاں 
(فراغ روہوی)
اللہ کی ذات لازوال ہے۔ اس کے  سوا ہر شے  کو فنا کے  دشت میں بکھر جانا ہے۔ بڑے  بڑے  پہاڑ بھی ایک دن ریزہ ریزہ ہو جائیں  گے۔ مشت خاک کی حقیقت ہی کیا۔ شاعر اپنی اوقات اور حقیقت سے  بخوبی آشنا ہے۔ اللہ و باقی من کل فانی پر اسے  یقین کامل بھی ہے  اور مکمل ایمان بھی۔ 
درج بالا اشعار مغربی بنگال کے  نمائندہ شعرا کرام کے  حمدیہ اشعار تھے۔ آپ نے  محسوس کیا ہو گا کہ ان اشعار میں عشق کا الاؤ بھی تیز ہے  اور جذبات کا بہاؤ بھی۔ اب آئیے  ہندوستان کے  کچھ نمائندہ شعرا کرام کے  حمدیہ اشعار مطالعہ کرتے  چلیں :
مجھے  تو نذر بھی کرنے  کو کچھ نہیں  اپنا
جبیں  کی خاک تری، آستاں  بھی تیرا ہے 
(مظہر امام)
تمام نعمتیں  خدا کی عطا کردہ ہیں۔ انسان کے  پاس اپنا کچھ بھی نہیں  ہے  کہ وہ اپنے  رب عظیم کی بارگاہ میں  کچھ نذر کر سکے۔ نہ جبیں  اس کی ہے، نہ جبیں  کی خاک اس کی، نہ وہ آستاں  اس کا ہے  جہاں  وہ سر جھکاتا ہے۔ شاعر کو اپنی تہی دستی کا شدت سے  احساس ہے۔ اسی احساس کو اس شعر میں  اجاگر کیا گیا ہے۔ 
پیڑوں  کی صفیں، پاک فرشتوں  کی قطاریں 
خاموش پہاڑوں  کی ندا اللہ ہی اللہ
(بشیر بدر)
جس دن کائنات تخلیق ہوئی ہے، اسی دن سے  کائنات کی ہر شے  خواہ وہ جاندار ہو کہ بے  جان، خالق حقیقی کی ثنا خوانی میں  مصروف ہے۔ اسی بات کو شاعر نے  شاعرانہ انداز میں  یوں  نظم کرنے  کی کوشش کی ہے  کہ پیڑوں  کی 
صفیں  ہوں  کہ فرشتوں  کی قطاریں  یا خاموش پہاڑیاں  سب کی زباں  پر ایک ہی رٹ ہے۔ اللہ ہی اللہ، اللہ ہی اللہ کے  ورد کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے  گا۔ 
ہاتھوں  میں سجتے  ہیں  چھالے، جیسی تیری مرضی
سکھ داتا، دکھ دینے  والے، جیسی تیری مرضی
(مظفر حنفی)
بے  شک رب قدیر کے  فیصلوں  کے  سامنے  بشر بے  بس اور لاچار ہے۔ اس کی مرضی کے  آگے  سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ عیش و آرام اور آسائشیں  عطا کرنے  والا سکھ کی بجائے  اگر دکھ سے  دامن بھر دے  یا صلے  کی جگہ ہتھیلی پر صرف چھالے  ہی سجا دے  تو شکوہ نہیں  کرنا چاہئے، بلکہ محبوب کی اس ادا کو بھی مسکرا  کر گوارا کر لینا چاہئے۔ شاعر نے  اسی خیال کا اظہار اس شعر میں  کیا ہے۔ 
منزلیں  اس کی، مرادوں  کا نگر اس کا ہے 
پاؤں  میرے  ہیں، تقاضائے  سفر اس کا ہے 
(مغنی تبسم)
انسان مسافر ہے  اور دنیا مسافر خانہ یعنی ایک اور سفر درپیش ہے۔ حیات اس سفر کا ایک پڑاؤ ہے۔ ہم اپنی مرضی سے  اس سفر پر روانہ نہیں  ہوئے  ہیں۔ نہ کوئی منزل ہماری ہے  نہ مرادوں  کا نگر ہمارا ہے۔ ہم تو صرف حکم کے  بندے  ہیں۔ خدا جس سمت چلا رہا ہے  ہم چل رہے  ہیں۔ شاعر نے  اسی بات کو اس شعر میں نظم کرنے  کی کوشش کی ہے۔ 
سارے  نغمے، ساری صدائیں  تیری ہیں 
پاؤں  میرے  ہیں، تقاضائے  سفر اس کا ہے 
(ممتاز راشد)
کوئل کی کوک ہو کہ چڑیوں  کی چہکار، دریا کی لہروں  کا راگ ہو کہ آبشار کی سرگم، برسات کا سر ہو کہ ہواؤں  کے  گیت یا انساں  کے  لبوں  کی دعائیں، سب ایک ہی کرشمہ ساز کی کرشمہ سازیاں  ہیں  جس نے  ایک اشارے  میں  سب کو خلق کیا ہے۔ درج بالا شعر میں  اسی مفہوم کو ادا کیا گیا ہے۔ 
سنگ در بھی ترا، شہر جاں  بھی ترا
لب پہ اعجاز لفظ و بیاں  بھی ترا
(ظہیر غازی پوری)
انسان کے  پاس سب کچھ ہوتے  ہوئے  بھی اس کا اپنا کچھ نہیں  ہے۔ ساری عطائیں  اللہ جل جلالہ کی ہیں۔ وہ سنگ در بھی جہاں  ہم سر بسجدہ ہوا کرتے  ہیں۔ وہ شہر جاں  بھی جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ لفظ و بیاں  کا وہ اعجاز بھی جو ہمارے  لبوں  پر مچلتا رہتا ہے۔ شاعر نے  اس شعر میں  اسی حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ 
سمجھ میں  کچھ نہیں  آتا کوئی مقام اللہ
عجیب ہے  تری قدرت، ترا فنظام اللہ
(رؤف خیر)
بشر کے  اختیار میں نہیں  کہ وہ ذات باری کے  مقام یا مرتبے   کو پہچان سکے۔ وہ عظیم ہے، بڑی عظمت والا ہے۔ اتنی عظمت والا کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ اس کا مقام، اس کی قدرت، اس کا نظام ایک معمہ ہے  جس کا حل بشر کی  فکر و فہم سے  بالاتر ہے۔ اسی خیال کو اس شعر میں  پرونے  کی کوشش کی گئی ہے۔ 
سارے  مکاں  سے  اونچا ہے  لامکاں  تمہارا
یہ سر زمیں  تمہاری، یہ آسماں  تمہارا
(مناظر عاشق  ہرگانوی)
اللہ تبارک و تعالیٰ تمام جہانوں  کا خالق بھی ہے  اور مالک بھی۔ وہ ہر جگہ قیام پذیر ہے۔ یہ زمیں، یہ آسماں  سے  آگے  لامکاں  تک اسی کا قیام ہے۔ وہ لامکاں  جس کی وسعت اور بلندی کا تصور بھی نہیں  کیا جا سکتا۔ وہ تمام مکانات سے  وسیع اور بلند و بالا ہے۔ اسی مفہوم کا اظہار اس شعر میں کیا گیا ہے۔ 
ترے  ہاتھ موت و حیات ہے، ترے  بس میں  قید و نجات ہے 
تجھے  ذرے  ذرے  کی ہے  خبر، تری شان جل جلالہ
(علیم صبا نویدی)
رب ذوالجلال کے  دست قدرت میں  کیا نہیں  ہے۔ انسان کی موت و حیات بھی اسی کے  ہاتھ میں  ہے  اور قید و نجات بھی۔ وہ بڑی شان والا ہے  اور عالم الغیب بھی۔ وہ ذرے  ذرے  کی خبر رکھتا ہے۔ شاعر نے  اس شعر میں  شان کریمی کا اقرار اور اس کے  قادرانہ وصف کا اعتراف بھی کیا ہے۔ 
تری ذات جس کو ثبات ہے، وہی جو کہ بالا صفات ہے 
نہ شریک ہے، نہ سہیم ہے، تری شان جل جلا لہ
(مختار ٹونکی)
اللہ جل جلالہ کی صفات میں ایک بہت بڑی صفت یہ بھی ہے  کہ وہ لاشریک ہے  یعنی یکہ و تنہا ہے۔ اس کا نہ کوئی ہم سر ہے  نہ ساتھی وہ لازوال ہے  اور ہمیشہ رہنے  والا ہے۔ شاعر نے  اس شعر میں  ذات باری کی یکتائی کی قصیدہ خوانی کا شرف حاصل کیا ہے۔ 
خیرو شر تیری پنا ہوں  میں  خدا
تو ہی نغموں، تو ہی آہوں  میں  خدا
(خورشید اکبر)
رب کریم کی ذات اقدس بے  شمار صفات کا مرقع ہے۔ وہ وحدت الوجود بھی ہے  اور وحدت الشہود بھی۔ وہ دنیا کی ہر شے  میں  موجود ہے۔ ہر شے  میں  اسی کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔ خیر ہو کہ شر اسی کی پنا ہوں  میں  ہے۔ وہ نغموں  میں  بھی نظر آتا ہے  اور آہوں  میں بھی۔ اسے  دیکھنے  اور محسوس کرنے  کے  لیے  چشم بینا درکار ہے۔ 
ازل، ابد ہیں  سرود تیرے 
نظام ہست اور بود تیرے 
(عطا عابدی)
دنیا کے  تمام معاملات و موضوعات ذات باری سے  ہی منسوب ہیں۔ ازل کی گفتگو ہو کہ ابد کا بیان، نظام ہستی کا ذکر ہو کہ وجودیت کا تذکرہ سب کا مرکز  و محور ایک خدا کی ذات ہی توہے۔ اسی مفہوم کو شاعر نے  اس شعر میں  نظم کرنے  کی کوشش کی ہے۔ 
آپ نے  ہندوستان کے  نمائندہ شعرا کے  حمدیہ اشعار کے  نمونے  ملاحظہ فرمائے۔ ان اشعار میں  بھی آپ نے  عشق کی تیز آنچ محسوس کی ہو گی اور جذبات کی حرارت بھی۔ آئے  اب دیکھیں  کہ پاکستان میں حمدیہ شاعر ی کوکس طرح برتا جا رہا ہے  وہاں  فکر کی اڑان کس سطح پر ہے، عشق کی لو کس قدر تیز ہے، کس درجہ معنی آفرینی، اثر انگیزی اور انفرادیت پیدا کی گئی ہے ، اشعار ملاحظہ فرمائیں :
ممنون مرا دیدۂ بینا ہے  کہ تو نے 
دنیا کو دیا حسن تو مجھ کو بھی نظر دی
(قتیل شفائی)
رب عظیم کی نوازشات کا ہر وقت شکر ادا کرتے  رہنا چاہیے۔ کیوں  کہ اس نے  ہمیں  ہر شے  سے  مستفیض 
ہونے  کی صلاحیت بخشی ہے۔ اس نے  دنیا کو جہاں  حسن و جمال سے  نوازا ہے  وہیں  اس سے  خط اٹھانے  کے  لیے  ہمیں  اس نے  نظر بھی عنایت کی ہے۔ وہ نظر جسے  چشم بینا کہتے  ہیں۔ شاعر نے  اسی خیال کو اپنے  شعر میں  لفظی جامہ پہنانے  کی سعادت حاصل کی ہے۔ 
رزق پہنچاتا ہے  پتھر میں  چھپے  کیڑے  کو
تو ہی سوکھی ہوئی شاخوں  کو ہرا کرتا ہے 
(مظفر وارثی)
رب کریم کی شان کریمی تو دیکھئے  کہ وہ کہاں  کہاں  اپنے  رزاق ہونے  کا اعلان کر رہا ہے۔ وہ پتھروں  میں چھپے  ہوئے  کیڑوں  کو بھی رزق فراہم کرتا ہے۔ وہی سوکھی ہوئی ٹہنیوں  کو پھر سے  ہرا بھرا کرنے  کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ وہ سب کچھ کر گزرنے   پر قادر ہے۔ شاعر نے  اس شعر میں  ذات باری کی انہی اوصاف کا اعتراف کیا ہے۔ 
یہ ارض و سما، یہ شمس و قمر، سب تیرے  ہیں، ہم تیرے  ہیں 
ہے  نور کا عالم شام و سحر، سب تیرے  ہیں، ہم تیرے  ہیں 
(عشرت رومانی)
زمیں  سے  آسماں  تک، چاند سے  سورج تک، دن سے  رات تک اور نور سے  خاک تک سب کے  سب خدا کے  غلام ہیں۔ سب اسی کے  اشارے  پر مصروف کا رہیں۔ خدا نے  کائنات کوپر رونق بنانے  کے  لیے  ایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے  کہ یہ کائنات ہر وقت منور رہے۔ شمس و قمر کی تخلیق کے  پیچھے  یہی خیال کارفرما رہا ہو گا کہ اس خوبصورت کائنات میں  کسی بھی لمحہ ظلمت کا غلبہ نہ رہے۔ 
گلشن عالم کی زینت کارفرمائی تری
کتنی دلکش ہے  فلک پر بزم آرائی تری
(افتخار اجمل شاہین)
یہ زمین و آسماں  اور تمام موجودات آئینے  ہی تو ہیں۔ بے  شک ان آئینوں  میں  خدا کا جمال جلوہ فگن ہے  جنھیں  صرف آنکھ والے  ہی دیکھ پاتے  ہیں۔ شاعر بھی آئینہ در آئینہ محبوب حقیقی کا جلوہ دیکھ رہا ہے  اور اپنے  دل میں  اس کی شان یکتائی بھی محسوس کر رہا ہے۔ 
دریا پہ جب بھی چاہے  وہ صحرا اتار دے 
صحرا کو وہ نہ چاہے  تو دریا بنائے  کون
(سہیل غازی پوری)
رب قدیر کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ چاہے  تو دم بھر میں  سب کی شکل و صورت بدل کر رکھ دے۔ وہ جب چاہے  دریا کو صحرا بنا سکتا ہے  اور صحرا کو دریا بھی کر سکتا ہے۔ یہ قدرت اس کے  سوا کسی میں بھی نہیں۔ کیوں  کہ وہ قادر مطلق ہے۔ 
ازل کی صبح کا آغاز تیری خلاقی
ابد کی شام جہاں  ہے  وہاں  کا مالک تو
(غالب عرفان)
خالق کل جہاں  کی خلاقی بے  مثال و بے  نظیر ہی نہیں، ایک کرشمہ بھی ہے۔ وہ نہ صرف صبح ازل کا خالق ہے  بلکہ شام ابد کی تخلیق بھی اسی کی کرشمہ سازی ہے۔ وہ ازل سے  ابد تک کا خالق بھی ہے  اور مالک بھی۔ ذات باری کے  اسی وصف کو شاعر نے  نظم کرنے  کا فریضہ ادا کیا ہے۔ 
وہ بھی تیرے  ہیں  کہ جو عیش و طرب میں  گم ہیں 
 اور جتنے  بھی ہیں  شائستہ غم تیرے  ہیں 
(سیدمعراج جامی)
دنیا میں دو طرح کے  بندے  ہیں۔ ایک وہ جنھیں  عقبیٰ کی فکر نے  دنیاوی عیش و نشاط سے  دور مگر خدا کے  قریب کر رکھا ہے۔ دوسرے  وہ جنھیں  عاقبت کی فکر ہے  نہ پرواہ۔ اس بے  پروائی نے  انھیں  عیش و طرب میں  اس طرح الجھا رکھا ہے  کہ وہ خدا سے  دور ہو گئے  ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے  کہ تمام بندے  خدا کے  بندے  ہیں  لیکن ان میں کس قدر تضاد ہے۔ 
شہ رگ سے  بھی قریب ہے  سوچیں  تجھے  اگر
دیکھیں  تجھے  تو دور ہے، پانا محال ہے 
(شاعر علی شاعر)
خدا پاس بھی ہے  اور دور بھی، ہم اسے  پانا چاہیں  تو رسائی ممکن نہیں۔ کیوں کہ وہ ہمارے  گماں  سے  پرے  ہے۔ مگر تصور اور محسوس کیا جائے  تو وہ شہ رگ سے  بھی قریب تر ہے۔ بقول بشیر بدر:
خدا ایسے  احساس کا نام ہے 
رہے  سامنے  اور دکھائی نہ دے 
خدا ترے  کلام پر نہیں  کوئی کلام
بڑا کلیم تو تجھے  جچے  کلیم لفظ
(عبید اللہ ساگر)
خدائے  کثیر الصفات کی ایک صفت یہ بھی ہے  کہ وہ بڑا کلیم بھی ہے۔ کلام پاک اس کا روشن ثبوت ہے۔ اس کے  کلام سے  بڑھ کر کوئی کلام نہیں۔ اس کا کلام بے  مثال و لازوال ہے  جس پر بشر سے  کوئی کلام ممکن نہیں۔ لفظ کلیم اسی کی شایان شان ہے  اور اسی کو زیب دیتا ہے۔ اس شعر میں  اسی خیال کا اظہار کیا گیا ہے۔ 
کھلتے  کہیں  ہیں  پھول، کہیں  تپتی ریت ہے 
تیرا کہیں  جمال ہے، تیرا کہیں  جلال
(ساحل سلطان پوری)
رب العالمین رحیم بھی ہے  اور کریم بھی، قہار بھی اور جبار بھی۔ وہ اپنے  بندوں  پر صرف رحم و کرم ہی نہیں  کرتا۔ وہ جلال پر آ جائے  تو بندوں  کو مصیبتوں  میں  بھی ڈال دیتا ہے۔ روز ازل سے  اس کے  لطف و کرم اور جلال کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سلسلہ کہیں  سرسبز وادیوں  اور خوش رنگ نظاروں  کی صورت میں  نظر آتا ہے تو کہیں آتش فشاں  اور سلگتے  ہوئے صحراؤ  کی شکل میں۔ شاعر نے  اسی خیال کو اس شعر میں  پرویا ہے۔ 
جب تک کہ تو زباں  کو نہ طاقت عطا کرے 
بندے  کی کیا مجال کہ تیری ثنا کرے 
(منظر ایوبی)
ایک تو ذات باری کی توصیف بشر سے  ممکن نہیں، دوسرے  یہ کہ جب تک رب عظیم زباں  کو طاقت گفتار نہ عطا کرے  بندے  کی کیا اوقات کہ اس کی ثنا خوانی کا حق ادا کر سکے۔ کیوں  کہ بندہ عاجز بھی ہے  اور قاصر بھی۔ اس شعر میں  اسی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ 
مذکورہ اشعار نمونے  اور مثال کے  طور پر پیش کیے  گئے  ہیں۔ مختصر سے  مضمون میں  تمام غزل گو شعرا کرام کے  حمدیہ اشعار کا احاطہ ممکن نہیں۔ سینکڑوں  شاعر ہیں  جنھوں  نے  تبرکاً ہی سہی ذات باری کی ثنا خوانی کا شرف اور سعادت حاصل کی ہے۔ حمدیہ شاعر ی کے  لیے  محبوب کے  عشق میں  ڈوبنے  اور سرشار ہونے  کی ضرورت ہے  تبھی یہ صنف اپنے  درجہ کمال کو پہنچ سکتی ہے۔ ذات باری کا ذکر یا اس کی یاد کسی حوالے  سے  ہو اس کے  فیض سے  انسان کے  قلب کا ہر گوشہ منور ہو جاتا ہے۔ خداوند تعالیٰ ہم سب کو اس کے  ذکر کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

0 comments:

Note: only a member of this blog may post a comment.