Wednesday 25 March 2020

               باغی رُوحیں

باغی رُوحیں

حنیف سیّد

۳۴  ؍  ۱۲۔سوئی کٹرہ۔   
 آگرہ   ۲۸۲۰۰۳۔(یو،پی)۔انڈیا.

               باغی رُوحیں 

کرخت اور ہیبت ناک آواز،جس سے ساتوں طبق تھرّا گئے تھے۔ایسی بلند آواز آج تک نہ سنائی دی تھی کبھی۔جس سے فرشتوں کے حواس باختہ تھے، جیسے: قیامت آئی ہو۔ایک قہرہوا ہو نازل ،جس کا ردِ عمل فرشتوں میں صاف دکھائی دے رہاتھا۔وہ سراسیمگی کی حالت میںاِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔باربارسجدوں میں گررہے تھے ۔حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ اُن کے معبودِ حقیقی کی آوازہے اور اُنھیں بار گاہِ الہٰی میں طلب کیا گیا ہے، چوں کہ آواز میں بے انتہا طیش تھا،لہٰذااُس جبّاروقہّار کے روبہ رو پیش ہونے کی ہمت نہ تھی کسی میں۔ 
آواز، روحانی وجود کو مسلسل دہلائے جارہی تھی۔حکم عدولی کی گنجایِش نہ پا کر فرشتوں نے بہ دِقّت حواس مجتمع کیے، پھر گھبرایے اورسہمے ہویے ،یکے بعددیگرے بار گاہِ الٰہی میںجمع ہونے لگے۔
’’بربریت، کیوں چھاگئی ہے دنیا میں۔۔۔؟شیطانیت کا بول بالا ہے کیوں اِس قدر۔۔۔؟درندگی، کیوں بڑھ گئی ہے اتنی۔؟موالیدثلاثہ کانظام برہم کیوں ہوتا جارہاہے اتنا۔۔۔؟‘‘ غیب سے آوازآئی۔
’’میرے رب۔۔۔۔۔!یہ سب،دنیا میں انسانوں کی بہ نسبت حیوانوں کی تعداد بڑھ جانے کے سبب ہے۔‘‘ایک فرشتے نے ہمّت جمع کر کے بتایا۔
’’کیوں۔۔۔!آخر کیوں بنادِیے اِتنے حیوان۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہم مجبور ہیں، میرے رب۔۔۔۔!‘‘کئی فرشتے ہمّت جمع کر کے ایک ساتھ بولے۔
’’مجبور۔۔۔!ہے کیا مجبوری تمھاری۔۔۔۔؟‘‘ آواز میں طیش تھا۔
’’اے خالقِ کائنات۔۔۔!ہم اُتنی ہی رُوحوں کووجوددیتے ہیں جتنا کہ تیرا حکم ہے۔‘‘فرشتے بولے۔
’’توحیوانوں کی بہ نسبت انسانوں کووجود کیوں نہیں دیتے۔۔۔؟‘‘
’’انسانی وجود میں رُوحیں جانے سے انکار کر رہی ہیں،میرے آقا۔۔۔!‘‘سب فرشتوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔’’انکار۔۔۔!آخر کیوں۔۔۔۔؟‘‘
’’رُوحیں، حیوانی وجود پسند کررہی ہیں۔‘‘

’’کیا تم نے اسباب دریافت کیے اُن سے۔۔۔؟‘‘
’’کیے، میرے آقا۔۔۔!‘‘ ’’توپھر۔۔۔؟‘‘
’’رُوحوں کی کچھ پرابلمزہیں،میرے معبود۔۔۔!‘‘فرشتوں نے سر جھکا کر بڑے ادب سے بتایا۔
’’پرابلمز۔۔۔۔!وہ کیسی پرابلمزہیں جوانسانی وجود کے بجاے حیوانی وجود پسند کررہی ہیں رُوحیں۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں،غفورالرّحیم۔۔۔!مگر ہے یہی سچ۔‘‘
’’رُوحوں کوپیش کیاجائے۔۔۔!‘‘خالقِ دوجہاں کاحکم ہوااورفرشتوں نے رُوحیں پیش کردیں۔
’’انسانی وجود پسند کرنے والی رُوحیں، مشرق میںاورحیوانی وجود پسند کرنے والی، مغرب میں کھڑی ہوجائیں۔۔۔!‘‘رب کاحکم ہوااور ساری کی ساری رُوحیں، مغرب میں پہنچ گئیں۔
’’احسان فراموش رُوحو۔۔!تم انسانی وجودمیںداخل ہوناکیوں نہیں چاہتیں۔۔۔؟‘‘ رب نے سوال کیا۔
’’بس۔۔۔۔!نہیں چاہتے۔‘‘رُوحوں نے جواب دیا۔
’’آخر کیوں ۔۔۔؟‘‘
’’ہم انسانی وجود میں نہیں جائیں گے ،چاہے ہم کوابھی جہنّم میں کیوں نہ ڈال دیا جائے۔‘‘رُوحیں، ایک ساتھ بولیں۔
’’ہم نے انسان کواشرف المخلوقات بناکر دنیا میں بھیجا ہے،وہاں اُن کے لیے ساری نعمتیں مہیّا کی ہیں۔‘‘
’’ہم نہیں چاہتے اشرف المخلوقات بننا۔‘‘
’’کیوں کیوں۔۔۔!ایسا کیوںہے۔۔۔۔؟ہم جانناچاہتے ہیں۔‘‘معبودِ حقیقی نے دریافت کیا۔
’’ہم دنیا سے آئے اشرف المخلوقات سے ملے ہیں،اُن کے احوال سنے ہیں، ہم سب نے۔‘‘
’’کیا بتایا ہے،۔۔۔؟اُنھوں نے۔‘‘
’’اُنھیں سے دریافت کر لیا جائے ،میرے رب۔۔۔!‘‘
’’فرشتو۔۔۔!دنیا سے آئی ہوئی رُوحوں کو پیش کیا جائے۔۔۔!‘‘حکم ہوااورفرشتوں نے چیختی ،چلّاتی، بدحال روحوں کوحاضر کردیا۔
’’اے احسان فراموش رُوحو۔۔۔!ہم نے تمھارے لیے آسمان بنایا،زمین بنائی، سبزے اُگائے،پھول پھل،رنگ وبو،آگ ،پانی اورہوا جیسی بہت ساری نعمتیں پیدا کیں ہیں،دنیامیں۔‘‘
’’اے علیم وخبیر۔۔!مجھ کوتوکچھ بھی نہ دکھائی دیا دنیا میں۔‘‘ایک رُوح نے آگے بڑھ کر جواب دیا۔
’’ فرشتو۔۔۔! کیا تم نے اِس کی آنکھیں نہیں بنائی تھیں۔۔۔؟‘‘خالق نے فرشتوں سے دریافت کیا۔
’’بنائی تھیں ،میرے آقا۔۔۔!سبھی کچھ بنایاتھااِس کا ۔‘‘ایک فرشتے نے آگے بڑھ کر جواب دیا۔
’’تو کیا یہ ُروح، جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔؟‘‘
’’نہیں میرے آقا ۔۔۔!یہ سچ بول رہی ہے۔‘‘
’’آنکھیں ہونے کے باوجود دکھائی نہیں دیا اِس کو۔ آخر کیوں۔۔۔۔؟‘‘خالق نے دریافت کیا۔
’’اے دانائے راز۔۔۔۔!جب اِس رُوح کادنیا میں جانے کاوقت آیااور ہم نے اِس کوانسانوں کے جسموں کے روبہ رو کیا،تواِس نے ایسے ماں باپ کے درمیان اپنی شکل اختیار کی جونہایت نیک،صالح،عابد،ایمان دارواور پرہیزگارعِراقی باشندے تھے ۔ جوامریکا کی بم باری سے خائف ایک غار میںچھپے تھے،بھوکے اورپیاسے۔ایک دن اُسی غار کے دہانے پرایک طاقتوربم پھٹااوراِس کی والدہ کے ساتھ اِس کا بھی کچّا انسانی وجود ٹکڑوں کی شکل میں بکھر گیا۔پھر یہ گھائل رُوح ،اپنے ٹکڑوں سے لپٹ لپٹ کرتڑپتی رہی،بلکتی رہی اوراِس کا جسم؛ چیلوں،کووّں،کُتّوں،کیڑوںاور مکوڑوں کی خوراک بن گیا۔ اے میرے رب۔۔۔!اِس پاک رُوح کی تیری مخلوق سے نہ تو کوئی دوستی تھی وہاں ،اورنہ ہی کوئی دشمنی۔اِس کووہاں ظلم کے سوا کسی بھی شے کااحساس نہ ہوا۔میرے آقا۔۔۔!دنیا سے آئی ہوئی ایسی لاتعداد رُوحیں ہیں ،جن کے احوال اِن سے بھی زیادہ دردناک ہیں،جن کوسُن کر عالمِ ارواح کی ساری رُوحیں ،دنیا میں جانے سے انکار کر رہی ہیں۔‘‘
’’میں انکار نہیں کر رہی ہوں ،میں تو دنیا میں ہی رہناچاہتی ہوں۔‘‘ ایک رُوح بہشت سے چیخی۔
’’یہ کیسی بد رُوح ہے جو ہماری بہشت کی نعمتیں ٹھکرا کردنیا میں واپس جانا چاہتی ہے۔۔۔۔؟‘‘معبودِحقیقی نے فرشتوں سے دریافت کیا۔
’’رب العزت۔۔۔!اِس رُوح نے بہشت میں اُودھم مچارکھا ہے۔بہشت کی ساری نعمتوں کو نظراندازکررہی ہے یہ۔‘‘فرشتوں نے بتایا۔
’’اُس رُوح کو پیش کیا جائے۔۔۔۔۔۔!‘‘حکم ہوااورفرشتوں نے فوراً اُس رُوح کو پیش کردیا۔
’’اے احسان فراموش رُوح۔۔۔!توچاہتی کیاہے۔۔۔؟‘‘رب نے رُوح سے دریافت کیا۔
’’دنیا میں واپس جانااوروہیں رہنا۔‘‘
’’آخر کیوں۔۔۔؟‘‘
’’ مجھ کو تیری دنیا میں وہ عیش وعشرت میّسر تھے،جو تیری بہشت میں نہیں۔‘‘ رُوح نے جواب دیا۔
’’ کیا کہا۔۔۔؟ ہماری بہشت میں وہ عیش وعشرت نہیں ہیں، جو دنیا میں میسّر تھے،تجھ کو۔۔۔؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔!‘‘
’’ کیا کیا عیش میّسر تھے تجھ کو وہاں ۔۔۔؟اے بدعقل رُوح۔۔۔!‘‘خالق نے رُوح سے دریافت کیا۔
’’بس ،عیش ہی عیش۔۔۔!‘‘ ’’وضاحت کر۔۔۔!‘‘
’’وہاں میری ہر آرام وعشرت کا خیال رکھا جاتاتھا۔دنیا کی ساری نعمتیں،ڈنلپ گدّوںپر ہی میسّر تھیں مجھ کو۔میری ذراسی اُداسی پر دنیا کے بڑے سے بڑے ڈاکٹرزمیرا چیک اَپ کرنے میرے گھر آتے تھے،دنیا کے ہر انسان کو نہانا ،دھونا،کھانااور پینا خوداپنے ہاتھ سے ہی کرنا پڑتا ہے، لیکن میری ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹرز اور نرسزمہیا تھیں۔میں دنیا کے کونے کونے میں گھومی،جہازوں سے فضا میں اُڑی،جہاں بھی رہی لوگوں کی گودوں میں رہی۔ایر کنڈیشنزکمروں میں زندگی گزاری۔ یہاں ہے کیا۔۔۔؟ایک جہاز تک تو ہے نہیں،تیری اِس بہشت میں۔میں، یہاں رہ کر کروں گی کیا۔۔۔؟ مجھ کو وہیں پہنچا دیا جایے ۔‘‘
’’دیکھو۔۔۔ !میری عزیز رُوحو۔!دیکھو۔۔!اور سمجھو۔۔۔!جس دنیا میں ساری نعمتیں میسّر کی ہیں ہم نے، اُسی دنیا میں نہ جا کرجہنّم کی آگ میں آخر کیوں جلنا چاہتی ہوتم سب۔۔۔؟‘‘ بد حال رُوحوں سے خطاب ہوا۔
’’دنیا میں جاناتو چاہتے ہیں، لیکن انسانی جسم میں نہیں۔‘‘رُوح نے برجستہ جواب دیا۔
’’تو کیا، تٗوانسانی جسم میں نہیں تھی تووہاں۔۔۔؟‘‘بہشت سے لائی گئی رُوح سے رب نے دریافت کیا۔
’’جی نہیں۔۔۔!‘‘
تو کس جسم میں تھی تٗو۔۔۔۔؟‘‘
’’حیوانی جسم میں۔‘‘
’’کس حیوانی جسم میں۔۔۔۔؟‘‘ کُتّے کے جسم میں۔‘‘
’’کُتّے کے۔۔۔! کس کے کُتّے کے ۔۔۔؟‘‘
’’بُش کے کُتّے کے جسم میں۔‘‘رُوح نے بتایااور خالق نے سب سے بھیانک جہنّم تیار کرنے کا حکم صادِرکر دیا۔

    0 comments:

    Note: only a member of this blog may post a comment.