Wednesday, 25 March 2020


شرافت حسین 

Qazipura,Po.Tanda
Ambedkar Nagar U.P,224190

              سیاسی کھیل

ہولی کے دن جھنکو چاچا کو اپنے دروازے پر دیکھ کر بنواری لال کا چہرہ کھل اُٹھا۔وہ انھیں گلے لگانے کے لئے آگے بڑھے لیکن ان کے سفید کرتے کو دیکھ کر رُک گئے کہ وہ خود رنگوں سے بھرے گیلے کپڑوں میں شرابور تھے، بس آداب کے ساتھ ہاتھ ملاکر رہ گئے ۔بولے:
’’چھینکو بھیا تم کیسے بچ گئے؟رنگوں کی ایک بوند بھی نہیں پڑی تمھارے اوپر جب کہ ہولی کا جلوس سڑکوں پر دھماچوکڑی مچائے ہوئے ہیں ‘‘۔میں محلوں کے اندر اندر گلیوں سے چل کر آرہا ہوں ۔مجھ کو رنگ کھیلتے ہوئے لوگ ملے بھی ،مجھ پر رنگ ڈالنا چاہا، لیکن ان کے بڑوں نے شاید میری داڑھی دیکھ کر انھیں سختی سے منع کیا۔ لیکن بنواری یہ جوڈی جے بجتا ہے، یہ کتنوں کو کادل کا مریض بنا ڈالے گا ۔سیدھے دل پر چوٹ لگتی ہے ۔ہل کر رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
گھر کے باہر بچھی چار پائی پر بیٹھتے ہوئے جھنکو چاچا نے اپنی بات پوری کی ۔سرکار کتنا منع کرتی ہے ڈی جے بجانے سے مگر کوئی مانتا ہی نہیں۔ آج کل کے نوجوان لڑکوں کو بغیر اس کے ناچتے کودنے سے میں مزہ ہی نہیں آتا‘‘۔
جھنکو چاچا اور بنواری لال میں بچپن کی یاری تھی لیکن بنواری لال جب سے شہر کے کنارے گھر بنواکر رہنے لگے تھے دونوں کا ساتھ چھوٹ گیا تھا ۔کبھی کبھار راہ چلتے ہی ملاقات ہوتی تھی۔پچھلی ملاقات میں بنواری لال نے ہولی کے دن جھنکو چاچا کو دعوت پر بلا لیا۔
’’جھنکو بھیا !نمستے۔‘‘بنواری لال کی گھر والی دروازے کے باہر آکر کھڑی ہوگئی۔
’’آؤکانتی بھوجی ! بہت دنوں بعد بہت دنوں بعد تمھیں دیکھ رہا ہوں،ٹھیک ہو؟‘‘’’ ہاں اور آپ کے گھر میں سب کشل منگل ہے نا؟‘‘
’’اب کیا بتائیں بھوجی،کہنے کو تو سب اچھا ہے مگر اس خود غرضی کے گھٹن بھرے ماحول نے جینا دوبھر کر رہا ہے ۔پھر بھی جو تھوڑی بہت زندگی رہ گئی ہے ہنسی خوشی سے کاٹ دینا ہے‘‘۔
’’اب تو آپ بھی پوتے پوتیوں والے ہو گئے ہوں گے‘‘؟۔
’’ہاں!کیوں نہیں ،کبھی آؤ گھر پر تم لوگ بھی،دیکھو ہم لوگ پہلے جیسے 

ہی ہیں ۔بس وقت نے چہرے پر جھریوں کا جال پھیلا دیا ہے۔ اچھا بھوجی،یہاں آئے تم لوگوں کو کتنے برس ہوئے ہوں گے؟‘‘
کانتی نے گھر کے باہر لگے نیم کے پیڑپر ایک نگاہ ڈالی ،اس کے چہرے پر یادوں کی پرچھائیاں ہویدا ہوئیں ۔بولی:
’’اب اچھی طرح یاد نہیں لیکن یہاں آنے کے بعد یہ نیم کا پیڑ لگا یا تھا۔ دیکھو کتنا بڑا ہو گیا ہے اور چھتنارہ بھی۔ان دنوں ننھے ننھے سفیدپھولوں سے بھر گیا ہے۔کچھ دنوں بعد نیم کولیاں آجائیں گی۔تمھارے بھائی گرمیوں کے دو پہر میں اس کی چھاؤں میں ہوتے ہیں۔‘‘
’’اور رات میں ؟‘‘جھنکو چاچا مسکرا رہے تھے۔
کانتی سمجھ گئی جھنکو بھیا اب مسخری کے موڈ میں ہیں ،اس لئے خاموش رہ گئی۔اب اس عمر میں وہ کیا مذاق کرتی۔
بنواری لال نے اپنی کہی ۔۔۔۔’’پوری سبزی ہوگئی ہو تو لاؤ،جھنکو بھیا کے لئے ،اور گوجھیا جھنکو بھیا کو بہت پسند ہے۔ذرا زیادہ لانا۔‘‘
’’تم لوگ باتیں کرو ،ابھی بہو تازہ پوریاں نکال دے گی۔سبزی تیار ہے‘‘۔
کہیں دور سے ڈی جے بجنے کی آواز آرہی تھی۔بیچ بیچ میں یہ آواز شیر کی دھاڑ جیسی بن جاتی ۔جو سماعت پر بری طرح گراں گزر رہی تھی ۔
’’سن رہے ہو نا جھنکو بھیا! ہمارے زمانے میں بھی ہولی ہو تی تھی ،لوگ پھاگن ماہ کا انتظار کرتے تھے ۔بسنت گڑے ہی رات میں پھاگ گائے  جانے لگتے تھے۔ڈھول مجیرے کی آواز کانوں میں رس گھولتی تھی ،ہلا گلا نہیں ہوتا تھا۔ یاد ہوگا آپ کوبھی‘‘۔
’’اچھی طرح یاد ہے بنواری ،اور یہ بھی یاد ہے کہ جب ہولی ختم ہوتی تھی تو پڑوس کی گیت منڈلی ایک ایک گھر کے دوار پر جاکر ڈھولک مجیرے کے ساتھ دعائیہ گیت گاتی تھی۔ جس کے بول رس کی طرح تھے۔
 سدا آنند رہے یہ دوارے سوہنا
جییں توکھلیں  پھاگ لال من موہنا
’’اس گھر کے لوگ خوش حال رہیں تاکہ اگلے سال بھی ہولی کی خوشیاں مناسکیں‘‘۔
’’ہولی ہے بھئی ہولی ہے‘‘۔دس بارہ سال کے دو تین لڑکے پلاسٹک کی پچکاریوں میں رنگ بھر کر گلی سے نکلے۔وہ ایک دوسرے کے کپڑوں پر مختلف رنگوں کے گل بوٹے بنا رہے تھے۔ جھنکو چاچا کوسفید رنگوں میں دیکھ کر ٹھٹک گئے ،ان کے اوپر رنگ ڈالنے کی خواہش کو بنواری لال نے بھانپ لیا اور انھیں ڈانٹ پلائی۔
’’ہے!خبردار بھاگو یہاں سے‘‘۔
دو لڑکے چلے گئے لیکن ان میں ایک بنواری لال کا پوتا بھی تھا۔وہ بغور جھنکو چاچا کو دیکھنے لگا ۔
’’دادا جی! کون ہیں یہ؟‘‘ ’’یہ بھی تمھارے دادا جی ہیں‘‘۔
’’لیکن میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا،یہ تو مسلمان ہیں ،پھر کیسے میرے دادا جی ہوئے؟‘‘
’’وہ ایسے بیٹا کہ ہم لوگ پہلے ان کے پڑوس میں رہتے تھے ،ہمارے گھر کی دیواران کے گھر سے ملی ہوئی تھی۔ جیسے تمھارے گھر کی دیوار ونود کے گھر سے ملی ہوئی ہے ،اور بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے۔ عید،دیوالی،دسہرا،شبِ برات جیسے تیج تہوار مل جل کر مناتے تھے۔ایک دوسرے کے یہاں جاکر کھانا کھاتے تھے  غم اورخوشی میں شریک ہوتے تھے۔تب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے،تو کیا جانو‘‘۔
’’لیکن ہم ہندو ہیں اور یہ مسلمان؟‘‘
’’مذہب الگ ہے تو کیا ہوا ہم ایک جیسے انسان تو ہیں۔ بھائی کی طرح کیوں نہیں رہ سکتے؟‘‘
’’مسلمان اگر بھائی ہیں تو ایودھیا میںرام مندر کیوںبننے نہیں دیتے؟‘‘
پوتے کی بات سن کر بنواری لال سناٹے میں آگئے۔ان کے گھر میں کبھی مسلمانوں سے بھید بھاؤ نہیں رکھا گیا تھا۔ ہمیشہ بھائی چارہ بنائے رکھا ،پھر بارہ سال کے اس بچے میں کہاں سے یہ زہریلا مادہ آگیا؟ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔وہ جھنکو چاچا سے شرمندہ تھے اور نظر نہیں ملا رہے تھے۔کسی طرح وہ کھسیانی ہنسی کے ساتھ پوتے سے بولے۔
’’بچوا! مسلمانوں نے کہاں روکا ہے رام مندر کو۔ وہ تو سپریم کورٹ عدالت نے روک رکھا ہے اگر مندر نہیں بنا تو کون سی آفت آجائے گی؟ سیکڑوں سالوں سے وہاں مسجد کھڑی تھی تو کون سی قباحت تھی؟ پھر اسے گرا دیا گیا تو دنیا بھر میں ہماری کون سی عزت بڑھ گئی؟ ہندو مسلمان کا چکر چھوڑ دو بچوا،یہ سب راج نیتی کا کھیل ہے۔تم نہیں سمجھوگے۔کچھ لوگ اپنے مطلب کے لئے ہندوتو کے نام پر ہمارا سنسکار چھین رہے ہیں ۔نئی نسلیں خراب ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔‘‘کہتے کہتے بنواری لال کا گلا رُندھ گیا۔
جھنکو چاچا بُت بنے بیٹھے رہے،جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
٭٭٭ 
خواب کل ہے اور تعبیر جُزو۔۔۔۔۔۔اس لئے اُس صبح میں نے شگفتگی کو تعبیر مان لینے کی خوش فہمی نہیں پائی، کسی کی شمولیت سے بھی باز رہا ۔اچھا ہی ہوا۔روح میں نغمگی اُتار نے والے اُس خواب کی روح فرسا تعبیر کون برداشت کر سکتا تھا!وہ بھی نہیں‘تم بھی نہیں‘کوئی بھی نہیں۔۔۔۔۔اُداسی کا لباس پہننے والی روشنی کا نزول بہر حال ہونا ہی تھا اور وہ ہو گیا ۔اس کی مایوس آنکھیں آہستہ آہستہ سُرخ ہوں گی اور پھر ہمیشہ کی طرح شعلوں میں بدل جائیں گی۔آسمان چھو لینے کی بھر پور کوشش کے بعد دھند ہو کر ماحول کو بے نور کر جائیں گی۔ میں‘ہاں میں سوچتا ہوں کہ اس شہر کو چھوڑ دوں۔۔۔۔لیکن کہیں کہیں کچھ آشنا چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔کیا انھیں چھوڑ کر جانا خود غرضی (جو کہ اس عہد کی شناخت ہے )نہیں ہوگی ؟ مجھے یقین ہے کہ اداسی کا لباس پہننے والی روشنی پھر آئے گی اور ان کو بھی اپنی زد میں لے گی ۔اب شہر چھوڑنے کا میرا فیصلہ تذبذب کے مراحل سے دوچار ہے۔
اچانک مجھے احساس ہو نے لگاہے جیسے واگر کی کوئی سمفنی چھیڑ دی گئی ہو۔ ہاںمیں نے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔۔میں اپنے حافظہ کے دروازہ پر نا آشنائی کی تختی لگا رہا ہوں جیسے واگر کی سمفنی چھڑی ہوئی ہے ‘موسیقی قطرہ قطرہ میرے کانوں سے گزر کر دماغ میں جمع ہوتی جار ہی ہے۔۔۔۔۔دماغ‘ جس نے شہر چھوڑ نے کا فیصلہ کیا ہے!
کیا میں زندہ ہوں؟ کیا اس شہر کو چھوڑ کر میں زندہ رہ سکوں گا؟ کیا میںزندہ رہنا چاہوں گا؟زندگی کیا ہے‘ موت کیسی یا کہ سب کچھ فریبِ ہستی ہے !۔۔۔۔موسیقی تیز ہوتی جارہی ہے‘سوالات گردش کررہے ہیں۔موسیقی اور سوالات ایک دم گڈمڈ  ہوگئے ہیں ہوگئے۔۔۔۔سوالات۔۔۔موسیقی۔۔۔سوالات۔۔۔موسیقی۔۔۔سوالات۔۔۔موسیقی۔۔۔  اور صرف گردش۔
میری آنکھیں اتنی پھیل چکی ہیں کہ دونوں کناروں سے خون رسنے لگا ہے۔اب تو ان میں نہ اداسی کا ملبوس پہننے والی روشنی کا عکس ہے نہ ہی شب چہرہ بادلوں کی شبیہہ
فضا خاموش ہے!
فضا خاموش نہیں ہے!!
میں نے فیصلہ کر لیا ہے! میں نے فیصلہ نہیں کیا ہے!!
میں اس شہر کو چھور دوں گا!
میں اس شہر کو نہیں چھوڑوں گا!!
٭٭٭     

0 comments:

Note: only a member of this blog may post a comment.