ؔندرت نواز
شاہ محلہ، ڈالٹن گنج،پلاموں
جھار کھنڈ۔۱۰۱ ۸۲۲
ڈاکٹر مقبول منظرؔ’’چھاؤں مرے حصے کی‘‘کے آئینے میں
ہر دَور میں ذی حِس شعرا نے خونِ جگر پیا ہے اور درد و غم کو شعر کے پیکر میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔اردو شاعری میں عشق اور موت کے فلسفے کو بڑی باریک بینی سے پیش کیا ہے۔ انسانی ذہن کی بینائیوں کی تصویر کشی میں اردو شاعری کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ اور اس کی تصویر کشی میں غم رنگ سب سے زیادہ گہراہے۔جدید دور کے شعرا بھی اسی راہ پر گامزن ہو کر فن کی تخلیق کر رہے ہیں۔
۹۰؍ کی دہائی میں ابھر کر آنے والے شعرا ء میں ڈاکٹر مقبول منظرؔ کا نام بھی شام ہے۔ ڈاکٹر مقبول منظرؔ محتاج تعارف نہیں۔آپ علامہ نادم ؔبلخی کے شاگرد خاص رہے ہیں۔علامہ سے آپ نے فن عروض کا علم حاصل کیا۔ڈاکٹر مقبول منظرؔ بنیادی طور پر غزل کے خوش فکرشاعر ہیں۔معاصر شعرامیں وہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ اُن کی شاعری کا کینوس وسیع ہے۔ ان کے شعری لہجے میں کلاسیکیت اور جدید احساسِ فکر کی لطیف آمیزش ہے۔ منظرؔ کی شاعری دوسرے جدید شعر ا سے اس طرح بھی مختلف ہے کہ انھوں نے عمیق‘دقیق اور گہرے فلسفیانہ نظریات کے مقابلے عام زندگی کے تجربوں کو پیش نظر رکھا ہے۔ان کی شاعری فیشن زدہ جدیدیت کی زائیدہ نہیں ہے۔ان کی علمی بساط وسیع و عریض ہے۔مطالعے کی وسعت نے ان کی سوچ کی لہروں کو مرتعش اور تازہ رکھا ہے۔اس لیے انھوں نے روایت کے اس سوتے سے رشتہ قائم رکھا ہے جہاں سے جدیدیت کا خوش ذائقہ پانی والا صاف و شفاف چشمہ اُبلتا ہے ۔ان کے یہاں فکر و جذبے کی وہ سچائی ہے جو شعری عوامل کے لیے لازمی ہے ۔
ڈاکٹر مقبول منظرؔ نے غزل‘نظم‘دوہا‘رباعی کے علاوہ ہائیکو اور ماہئے پر بھی طبع آزمائی کی ہے اور کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہاں پر ہم صرف ان کی غزل گوئی کے متعلق گفتگو کریں گے کیونکہ ان کی غزلوں کا مجموعہ’’ چھاؤں مرے حصے کی‘‘ ۲۰۱۷ئکے اواخر میں شائع ہوا ہے جس کے مطالعے سے بخوبی واضح ہو تا ہے کہ مقبول کی غزلوں میں شعریت‘ غنائیت‘لطافت‘تخلیقیت‘ندرتِ معنویت ‘اور فکری عوامل کی نادرہ کاری اعلیٰ و ارفع سطح پر ملتی ہے ۔وہ لفظ کو تخلیقی لوازم سے آراستہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔اور اسے استعارے، پیکر اورعلامت کے طور پر برتنے میں مہارت رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر چنداشعار ملاحظہ کیجئے ؎
یہ کب سوچا تھا ماتھے کا لکھا زیر و زبر ہوگا۔بنیں گے سب پرائے، اجنبی خود اپنا گھر ہوگا
ٹھنڈی راکھ، پھر بھی ہاتھ اس میں ڈالنے والو۔اسی کی گود میں جاگا ہوا کوئی شرر ہوگا
کہتے ہیں اب اسی کو زمانہ شناس لوگ۔جو شیشۂ فریب حریفوں کا پھوڑ دے
ظلمت کی سازشوں سے ہے کیوں ہار مان لی۔شب کا طلسم، صبح کے نغموں سے توڑ دے
ڈاکٹر مقبول منظرؔ کی غزلیں روایتی انداز کے ساتھ ساتھ جدید یت کے لہجے کو اپنائے ہوئے ہیں۔سادہ الفاظ اور دلکش اسلوب اور متوازن مزاج سے قاری کو متاثر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔نہ وہ پوری روایتی شکل اختیار کرکے قاری کو پریشان کرتی ہیں اور نہ مکمل جدیدیت کے سیلاب میں بہہ کر بد حواس نظر آتی ہیں ،کم لفظوں میں بڑی بات کہنے کے ہنر سے آپ بخوبی واقف ہیں ،اور اس میں وہ زمانے کی کڑوی سچائی کو پیش کرنے سے بھی نہیں چوکتے ہیں۔بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں؎
مستحق کو ملی کہاں دستار۔بندھ گئی اور ہی کے سر دیکھو
مت کریدو یہ جاگ جائیں گے ۔خاک میں فتنے کے شرر دیکھو
زمیں کودھوپ سے دے غسل صحت۔یہی خورشید خاور چاہتا ہے
اندھی آنکھوں ہی کے آگے۔شیشہ ہیرا،ہیرا شیشہ
کرے آرام ابھی شبنم گلوں پر۔کہ سورج کی کرن پھوٹی نہیں ہے
بیداری کی حالت میں۔دیکھ نہ لیٹا لیٹا خواب
بہت کچھ تمھیں دیکھنا ہے ابھی۔ابھی تم نے دیکھا زمانہ کہاں
معروف شاعر منور راناؔ فرماتے ہیں ؎
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر۔مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
کچھ یہی سوچ رکھتے ہوئے مقبول منظرؔ یوں فرماتے ہیں ؎
سرہانے رکھ کے بازو سو گیا وہ۔کہاں مزدور بستر چاہتا ہے
میرے نزدیک کوئی بھی شاعر قبل مطالعہ اُس وقت بن سکتا ہے، جب اسے اپنے شعری روایتوں کی بھی خبر ہو اور روایتوں نے جو نئی سج دھج اختیار کی ہے اس کی بھی آگہی ہو۔ جدید شاعری میں کچھ تو وہ ہیں جو عصری حسیت اور جدید حسیت کے نام پر بے تکان اپنا شعری سفرجاری رکھے ہوئے ہیں۔ روایتیں کیا کچھ کہہ رہی ہیں اس سے بے خبری اورلا علمی ان کو معلّق بنائے ہوئے ہیں۔ان حالات میں جو سچا اور کھرا شاعر ہیوہ مشکوک ہوجاتا ہے۔میں نے قبل ہی بیان کردیا ہے کہ مقبول منظرؔ جدیدیت کے سیلاب میں بہہ نہیں گئے ہیں۔انھوں نے اپنے گوناگوں
خیالات ‘ جذبات‘حادثات اور تجربات کو اپنے کلام میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ چند اشعار بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں ؎
دستِ جدّت نے روایت کا بدن نوچ لیا۔قابل فخر وراثت کا بدن نوچ لیا
ذائقہ کیسے مری بات کا شیریں ہوتا۔تلخ لہجوں نے لطافت کا بدن نوچ لیا
آئیں نہ تیرے گھر میں اسے دیکھتے ہی سانپ۔گھر کے منڈیر سے وہ کبوتر اُتار لے
اک پَل کے زلزلے نے تہہ خاک کردیا۔بِکھرے پڑے زمیں پہ مناروں کے خواب ہیں
چین سے رہنے نہ دیں گے ہمیں اہلِ ثروت۔مفلسی آ،تجھے ہم اپنا پتہ دیتے ہیں
شدید خوف ہے دریا نہ خشک ہو جائے۔اُگل رہا ہے جو سورج الاؤ پانی پر
ڈاکٹر مقبول منظرؔ آج کے شاعر ہیں اور ان کا کلام بھی اسی دور کا ہے۔انھوں نہ طلسماتی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ مافوق الفطری عناصر سے کام لیا ہے۔نہ وہ جذبات کی رَو میں بہہ گئے ہیں اور نہ خاموشی سے آنسو بہانے کا سوانگ رچتے نظر آتے ہیں۔ان کے تجربات خود ان کے ذاتی واردات سے ماخوذ ہیں۔منظرؔ نے زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں کا بہت قریب سے مطالعہ کیا ہے۔کچھ اُن پہ خود گزری ہے،کچھ سماج پر۔لیکن اپنے فن سے کلام کو کچھ اس طرح موزوں کیا ہے کہ اسے جگ بیتی بنا دیا ہے اور قاری ان کا درد اپنا درد محسوس کرنے لگتا ہے۔ انھوں نے سماجی حقائق کو بہت حد تک ننگا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن شائستہ شاعری کے تقاضوں کا بھی پورا خیال رکھا ہے۔چند اشعار بطور مثال ملاحظہ فرمائیں ؎
دو رُتوں کے درمیاں اک جنگ جاری ہے تو ہے
لے کے ہر زخمِ خزاں بادِ بہاری ہے تو ہے
بادلوںنے مہر کے چہرے پہ ڈالا ہے نقاب
آسماں سے اب زمیں پر برف باری ہے تو ہے
جوذائقۂ تلخ سے بیزار بہت تھے۔اب نیم کی پتی کا مزہ مانگ رہے ہیں
اپنی جیبیں رگڑتا رہا وہ یہاں وہاں۔غیرت مری تو تیغ کے آگے بھی ڈٹ گئی
غم و رنج و الم کی بات ہے افکار میں پنہاں
صدائے دردِ دل کی ہم نوا ہے شاعری اپنی
الغرض ڈاکٹر مقبول منظرؔ کے اندر ایک حساس شاعر موجود ہے جو روایت کی روشنی سے استفادہ کر کے عصر حاضر پر اپنی گہری نظر رکھتا ہے اور اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں جی کھول کر بات کرنے کا عادی ہے۔ڈاکٹر مقبول منظرؔ کا شعری سفر ابھی شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔دیکھتے ہیں کہ اس سمندر سے اور کیا کیا گہر برآمد ہوتے ہیں۔
٭٭٭
0 comments:
Note: only a member of this blog may post a comment.