وفائے عہد
(اس کے اوپر کے صفحات غائب ہیں)
سے بچنے کے لیے عبادت کرتا ہے ، وہ اپنی عبادت کا نتیجہ قیامت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ جنت دوزخ کا معاملہ قیامت کے بعد ہے۔ لیکن صرف رب کی رضا کے لیے کرتا ہے تو رب اس سے راضی ہو جاتا ہے او روہ شخص فائدہ میں رہتا ہے۔
(وفا عہد)
رب ذوالجلا ل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَاٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۪ وَلَا تَشْتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ
اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو اور مجھی سے ڈرو۔ (پارہ ۱، سورہ بقرہ، آیت ۴۱۔ ترجمہ کنز الایمان)
تفسیر نعیمی:
اس آیت کریمہ کے تحت صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے ایمان فطری اور عقل سلیم عطا فرما کر بڑا احسان فرمایا پھر پیغمبروں کو بھیج کر کتابیں اتار کر علماء و مشائخ کو قائم فرما کر ہم سے ایمان اور نیک اعمال کا عہد لیا اور اپنے فضل و کرم سے اپنے دیدار کاوعدہ فرمایا۔ ہماری طرف سے پہلا وفاء عہد کلمہ شہادت ہے اور رب کی طرف سے ہمارے جان و مال کا محفوظ فرمانا ہے۔ ہمارآخری وفاء عہد دریائے توحید میں اس طرح غرق ہو جانا ہے کہ اپنی بھی خبر نہ رہے ۔ لا الہ کی تلوار سے غیر اللہ کو قتل کر دینا اور الااللہ میں فنا فی اللہ ہو کر باقی باللہ بن جانا رب تعالیٰ سے دائمی دیدار کا عطا ہونا اس کے درمیان وفاء عہد کے صدہا درجات وہزار ہا درکات ہیں۔
امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اے بندوں! تم دارالحجاب یعنی دنیا میں میرا عہد پورا کرو میں دارالقربت میں یعنی جنت میں تمہارا عہد پورا کروں گا ، تم ہمیشہ ربی ربی کہہ کر میرا عہد پورا کرو میں اس کے جواب میں عبدی عبدی کہہ کر اپنا عہد پورا کروں گا، تم دارلفراق میں میرا عہد پورا کرو کہ میرے سوا کو مت ڈھونڈو میں دارالوصال میں اپنا عہد پورا کروں گا، اپنے سوا کسی اور کی طرف نہ بھیجوں گا، تم میرے ہو جاؤ میں تمہارا ہو جاؤں گا۔
0 comments:
Note: only a member of this blog may post a comment.